English Fun

[English Fun][bleft]

Romantic Poetry

[Romantic Poetry][bsummary]

Jokes and Humor

[Funny Jokes][twocolumns]

Allama Iqbal Poetry in Urdu for Students 2018 - 2019 | Best Ever Good Poems for Kids

allama iqbal poetry in urdu for students, allama iqbal poetry, iqbal poetry, allama iqbal shayari, allama iqbal poetry in urdu, allama iqbal poetry for students, urdu poetry, iqbal poetry in urdu, poems for kids in urdu

Information about Allama Iqbal in Urdu 

-----☀-----

علامہ محمد اقبالؒ شاعرِ مشرق اور مفکرِ پاکستان کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ آپ 9 نومبر 1877ء کوسیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام شیخ نُور محمد تھا جو بڑے دین دار اور نیک انسان تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ سے حاصل کی۔ گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے (ٖFA) کا امتحان پاس کیا اور اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان (برطانیہ) چلے گئے۔ وہاں کی کیمبرج یونیورسٹی سے بیرسٹری کی ڈگری حاصل کی اور 1908ء میں وطن واپس تشریف لائے۔ لاہور میں قیام کیا، 1930 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے اور مسلمانوں کی آزادی کے لئے جدوجہد کی۔ تقریباً اِکسٹھ سال کی عمر میں 21 اپریل 1938ءکووفات پائی اور لاہور میں مدفون ہوئے۔ اُن کی زندگی کا احاطہ کرنا تو آسان نہیں، لیکن ہم یہاں اُن کی زندگی کے چند پہلوں کے بارے میں بتا رہے ہیں جو خصوصاً نوجوانوں اور بچوں کے حوالے سے ہیں۔ علامہ محمد اقبالؒ ہمارے قومی شاعر ہیں۔ آپ نے اپنی حکمت اور دانائی سے بھر پُور شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا اور انہیں غلامی کی زنجیروں سے باہر نکالا۔ علامہ محمد اقبالؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے نوجوانوں اور بزرگوں کو غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنے اور علیحدہ وطن حاصل کرنے کا درس دیا۔ وہ بچوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ انہوں نے بچوں کے لیے بہت سی دلچسپ، آسان اور سبق آموز نظمیں لکھیں۔ جن میں مکڑا اور مکھی، بلبل اور جگنو، پہاڑ اور گلہری، پرندے کی فریاد اور بچے کی دُعا زیادہ مشہور ہیں۔ آئیے ہم ان پیاری سی سبق آموز نظموں کو پڑھتے ہیں۔


نظم کےعنوانات:

پرندے کی فریاد
ماں کا خواب
ایک گائے اور بکری
ایک مکڑا اور مکھی
بلبل اور جگنو
بچے کی دُعا
☆☆☆☆☆☆

پرندے کی فریاد


یہ علامہ محمد اقبالؒ کی ایک مشہور اور سبق آموز نظم ہے جس میں ایک پرندے کی زبانی غلامی کے مصائب کی طرف اشارہ کیاہے۔ اس نظم میں شاعر نے ہمیں احساس دلایا کہ غلامی کی زندگی ایک قید کی سی زندگی ہوتی ہے، جو مصائب اور تنہائیوں سے بھری ہوتی ہے اور یہ تنہائیاں انسان کو اتنا مایوس اور نااُمید کر دیتی ہیں کہ وہ اپنی قسمت پر رونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ نظم یہ ہے:

آتا ہے ياد مجھ کو گُزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاريں، وہ سب کا چہچہانا 

☆☆☆
آزادياں کہاں ہیں، وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا، اپنی خوشی سے جانا  

☆☆☆
لگتی ہے چوٹ دل پر ، آتا ہے ياد جس دم
شبنم کے آنسوئوں پر، کليوں کا مُسکرانا 

☆☆☆
وہ پياری پياری صورت، وہ کامنی سی مُورت
آباد جس کے دم سے تھا، ميرا آشيانا
☆☆☆
آتی نہيں صدائيں،اُس کی مرے قفس ميں
ہوتی مری رہائی، اے کاش! ميرے بس ميں
☆☆☆
کيا بدنصيب ہوں ميں، گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہيں وطن ميں، مَيں قيد ميں پڑا ہوں 

☆☆☆
آئی بہار کلياں پھولوں کی ہنس رہی ہيں
ميں اِس اندھيرے گھر ميں، قسمت کو رو رہا ہوں
☆☆☆
اس قيد کا الہٰی! دُکھڑا کِسے سناؤں
ڈر ہے يہيں قفس ميں، مَيں غم سے مر نہ جاؤں
☆☆☆
جب سے چمن چُھٹا ہے، يہ حال ہو گيا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے، غم دل کو کھا رہا ہے
☆☆☆
گانا اِسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے!
دکھے ہوئے دلوں کی فرياد يہ صدا ہے
☆☆☆
آزاد مجھ کو کر دے، او قيد کرنے والے!
ميں بے زباں ہوں قيدی، تُو چھوڑ کر دُعا لے!

☆☆☆


ماں کا خواب 


اِس نظم میں شاعر نے ایک ماں کےخواب کو بیان کیا ہے جو اپنے بیٹے کی جدائی میں (یعنی اُس کی وفات کے بعد) روتی رہتی تھی۔ ایک رات اُس نے اپنے بیٹے کوخواب میں دیکھا، جو لڑکوں کے ایک گِروہ میں تھا۔ تمام کے ہاتھوں میں دِیا (شمع) روشن تھی، لیکن اُس کے بیٹے کے ہاتھ میں دِیا بُجھی ہوئی تھی۔ اُس نے اپنے بیٹے سے اس کی جدائی اور اپنے رونے کا واویلہ کیا تو بیٹے نے منہ پھیر کر جواب دیا کہ آپ کے رونے سے مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، بلکہ یہ جو بُجھی ہوئی دِیا میرے ہاتھ میں دیکھ رہی ہو، اِسے تمہارے آنسو نے بجھایا ہے۔ لہٰذا اس نظم میں شاعر ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کسی کی جدائی میں یا کسی کے فوت ہو جانے کے بعد رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ ہر ذِی روح (یعنی جاندار) نے موت کا مزا چکھنا ہے اور یہ امرِ ربی ہے۔ نظم یہ ہے: 

ميں سوئی جو اِک شب تو ديکھا يہ خواب 
بڑھا اور جس سے مرا اِضطراب 
☆☆☆
يہ ديکھا کہ ميں جا رہی ہوں کہيں 
اندھيرا ہے اور راہ ملتی نہيں 
☆☆☆
لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال 
قدم کا تھا دہشت سے اٹھنا محال 
☆☆☆
جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی 
تو ديکھا قطار ايک لڑکوں کی تھی 
☆☆☆
زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے 
دِيے سب کے ہاتھوں ميں جلتے ہوئے 
☆☆☆
وہ چپ چاپ تھے آگے پيچھے رواں 
خدا جانے جانا تھا ان کو کہاں 
☆☆☆
اِسی سوچ ميں تھی کہ ميرا پِسر 
مجھے اس جماعت ميں آيا نظر 
☆☆☆
وہ پيچھے تھا اور تيز چلتا نہ تھا 
ديا اس کے ہاتھوں ميں جلتا نہ تھا 
☆☆☆
کہا ميں نے پہچان کر، ميری جاں 
مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں 
☆☆☆
جدائی ميں رہتی ہوں ميں بے قرار 
پَروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار 
☆☆☆
نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی! 
گئے چھوڑ، اچھی وفا تم نے کی! 
☆☆☆
جو بچے نے ديکھا مرا پيچ و تاب 
ديا اُس نے منہ پھير کر يوں جَواب 
☆☆☆
رُلاتی ہے تجھ کو جدائی مری 
نہيں اس ميں کچھ بھی بھلائی مری 
☆☆☆
يہ کہہ کر وہ کچھ دير تک چپ رہا 
دِيا پھر دکھا کر يہ کہنے لگا 
☆☆☆
سمجھتی ہے تُو ہو گيا کيا اِسے؟
تِرے آنسوؤں نے بجھايا اِسے
☆☆☆


ایک گائے اور بکری


اِس نظم میں شاعرِ مشرق نے ایک گائے اور بکری کی کہانی بیان کی ہے، جس میں ایک گائے ایک بکری کے سامنے اپنی قسمت کو بُرا بھلا کہتی ہے اور اپنے مالک کی بُرائی (یعنی غیبت) کرتی ہے۔ لیکن بکری اُسے سمجھاتی ہے اور اس کی بات یقیناً گائے کی سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اس نظم میں شاعر ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کسی کی غیبت یعنی بُرائی نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی اپنے احسانات جتانے چاہییں۔ نظم یہ ہے:

اِک چراگاہ ہری بھری تھی کہیں 
تھی سراپا بہار جس کی زمیں 
☆☆☆
کیا سماں اُس بہار کا ہو بیاں 
ہر طرف صاف ندّیاں تھیں رواں 
☆☆☆
تھے اناروں کے بے شُماردرخت 
اور پیپل کے سایہ دار درخت 
☆☆☆
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں 
طائروں کی صدائیں آتی تھیں 
☆☆☆
کِسی ندی کے پاس اِک بکری 
چرتے چرتے کہیں سے آ نکلی 
☆☆☆
جب ٹھہر کر اِدھر اُدھر دیکھا 
پاس اِک گائے کو کھڑے پایا 
☆☆☆
پہلے جھُک کر اُسے سلام کِیا 
پھر سلِیقے سے یُوں کلام کِیا 
☆☆☆
کیوں بڑی بی! مزاج کیسے ہیں 
گائے بولی کہ خیر اچھّے ہیں 
☆☆☆
کٹ رہی ہے بُری بھلی اپنی 
ہے مُصیبت میں زندگی اپنی 
☆☆☆
جان پر آ بنی ہے ، کیا کہیے 
اپنی قسمت بُری ہے، کیا کہیے 
☆☆☆
دیکھتی ہوں خُدا کی شان کو میں 
رو رہی ہوں بُروں کی جان کو مَیں 
☆☆☆
زور چلتا نہیں غریبوں کا 
پیش آیا لِکھّا نصِیبوں کا 
☆☆☆
آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے 
اُس سے پالا پڑے، خُدا نہ کرے 
☆☆☆
دُودھ کم دُوں تو بُڑ بُڑاتا ہے 
ہوں جو دُبلی تو بیچ کھاتا ہے 
☆☆☆
ہتھکنڈوں سے غُلام کرتا ہے 
کِن فریبوں سے رام کرتا ہے 
☆☆☆
اُس کے بچّوں کو پالتی ہوں میں 
دُودھ سے جان ڈالتی ہوں میں 
☆☆☆
بدلے نیکی کے یہ بُرائی ہے 
میرے اللہ! تِری دہائی ہے 
☆☆☆
سُن کے بکری یہ ماجرا سارا 
بولی، ایسا گِلہ نہیں اچّھا 
☆☆☆
بات سچّی ہے بے مزا لگتی 
میں کہوں گی مگر خُدا لگتی 
☆☆☆
یہ چراگاہ ، یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہَوا 
یہ ہری گھاس اور یہ سایا 
☆☆☆
ایسی خوشیاں ہمیں نصیب کہاں 
یہ کہاں، بے زباں غریب کہاں 
☆☆☆
یہ مزے آدمی کے دم سے ہیں 
لُطف سارے اُسی کے دم سے ہیں 
☆☆☆
اُس کے دم سے ہے اپنی آبادی 
قید ہم کو بھلی، کہ آزادی 
☆☆☆
سو طرح کا بنوں میں ہے کھٹکا 
واں کی گُزران سے بچائے خدا 
☆☆☆
ہم پہ احسان ہے بڑا اس کا 
ہم کو زیبا نہیں گِلہ اس کا 
☆☆☆
قدر آرام کی اگر سمجھو 
آدمی کا کبھی گِلہ نہ کرو 
☆☆☆
گائے سُن کر یہ بات شرمائی 
آدمی کے گِلے سے پچھتائی 
☆☆☆
دل میں پرکھا بَھلا بُرا اُس نے 
اور کچھ سوچ کر کہا اُس نے 
☆☆☆
یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی 
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
☆☆☆


ایک مکڑا اور مکھی


یہ علامہ اقبالؒ کی ایک مشہور نظم ہے جس میں انہوں ایک مکڑے اور مکھی کی کہانی بیان کی ہے کہ کس طرح خوشامد کے ذریعے ایک مکڑے نے مکھی کو اپنے جال میں پھنسایا اور پھر اُسے اپنا لقمہ بنایا۔ دراصل اِس نظم کے ذریعے علامہ اقبالؒ نے بچوں میں یہ شعور پیدا کر نے کی کوشش کی ہے کہ خوشامد بُری بلا ہے۔ نظم یہ ہے:

اِک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا
اِس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھارا
☆☆☆
لیکن مری کُٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت
بُھولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھا
☆☆☆
غیروں سے نہ ملیے تو کوئی بات نہیں ہے!
اپنوں سے مگر چاہیے یوں کِھنچ کے نہ رہنا
☆☆☆
آؤ جو مرے گھر میں تو عزّت ہے یہ میری
وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا
☆☆☆
مکھی نے سُنی بات جو مکڑے کی تو بولی
حضرت! کسی نادان کو دیجیے گا یہ دھوکا
☆☆☆
اِس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے
جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا، پھر نہیں اُترا
☆☆☆
مکڑے نے کہا واہ! فریبی مجھے سمجھے
تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہو گا
☆☆☆
منظور تمھاری مجھے خاطر تھی، وگرنہ
کچھ فائدہ اپنا تو مِرا اِس میں نہیں تھا
☆☆☆
اُڑتی ہوئی آئی ہو خُدا جانے کہاں سے
ٹھہرو جو مرے گھر میں تو ہے اِس میں بُرا کیا
☆☆☆
اِس گھر میں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں
باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کٹیا
☆☆☆
لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے
دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا
☆☆☆
مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے
ہر شخص کو ساماں یہ میسّر نہیں ہوتا
☆☆☆
مکھی نے کہا خیر، یہ سب ٹھیک ہے لیکن
میں آپ کے گھر آؤں، یہ اُمید نہ رکھنا
☆☆☆
اُن نرم بچھونوں سے خُدا مجھ کو بچائے
سو جائے کوئی اُن پہ، تو پھر اُٹھ نہیں سکتا
☆☆☆
مکڑے نے کہا دل میں، سُنی بات جو اُس کی
پھانسوں اِسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا
☆☆☆
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا
☆☆☆
یہ سوچ کے مکھی سے کہا اُس نے بڑی بی!
اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رُتبہ
☆☆☆
ہوتی ہے اُسے آپ کی صُورت سے محبّت
ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا
☆☆☆
آنکھیں ہیں کہ، ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں
سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجایا
☆☆☆
یہ حُسن، یہ پوشاک، یہ خُوبی، یہ صفائی
پھر اُس پہ قیامت ہے یہ اُڑتے ہوئے گانا
☆☆☆
مکھی نے سُنی جب یہ خوشامد تو پسیجی
بولی کہ، نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا
☆☆☆
اِنکار کی عادت کو سمجھتی ہُوں بُرا میں
سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھّا نہیں ہوتا
☆☆☆
یہ بات کہی اور اُڑی اپنی جگہ سے
پاس آئی تو مکڑے نے اُچھل کر اُسے پکڑا
☆☆☆
بھُوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی
آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اُڑایا
☆☆☆


( ہمدردی ( بُلبل اور جُگنو


اِس نظم میں علامہ محمد اقبالؒ نے ایک بُلبل کی کہانی بیان کی ہے جو خوراک کی تلاش میں سارا دن گزار چکا تھا اور رات ہو گئی تھی۔ وہ ایک درخت پر پریشان بیٹھا تھا کہ گھر کیسے جاؤں۔ اتنے میں ایک جگنو آیا، اُس نے بلبل کو پریشان دیکھا تو کہنے لگا: میں آپ کو گھر چھوڑ دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے روشنی عطا کی ہے اور میں اندھیرے میں آپ کی رہنمائی کروں گا۔ اِس نظم میں دراصل شاعر بچوں میں یہ جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دوسروں کے کام آنا ہی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ نظم یہ ہے:


ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بُلبُل تھا کوئی اُداس بیٹھا
☆☆☆
کہتا تھا کہ، رات سر پہ آئی
اُڑنے چگنے میں دن گزارا
☆☆☆
پہنچوں کِس طرح آشیاں تک
ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا
☆☆☆
سُن کر بُلبل کی آہ و زاری
جگنو کوئی پاس ہی سے بولا
☆☆☆
حاضر ہُوں، مدد کو جان و دل سے
کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا
☆☆☆
کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
میں راہ میں روشنی کروں گا
☆☆☆
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دِیا بنایا
☆☆☆
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچّھے
آتے ہیں جو کام دوسرں کے
☆☆☆


بچے کی دُعا


یہ علامہ محمد اقبالؒ کی بہت ہی مشہور نظم ہے جو ہر بچے کی زبان زدِعام ہے۔ یہ دُعائیہ نظم روزانہ صبح پاکستان کے تقریباً تمام سکولوں میں اسمبلی کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ اس نظم کے اثرات ہمارے ذہنوں پر مثبت انداز میں پڑتے ہیں۔ اس نظم میں شاعر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ مجھے بُرائی سے بچا اور نیکی کے کاموں پر لگا۔ میں اپنے ملک کے لیے ایسی زینت بنوں جیسے پھول کی وجہ سے باغ میں خوبصورتی ہوتی ہے۔ نظم یہ ہے:


لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا ميری
زندگی شمع کی صورت ہو خدايا ميری
☆☆☆
دُور دنيا کا مرے دم سے اندھيرا ہو جائے
ہر جگہ ميرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے
☆☆☆
ہو مرے دَم سے يونہی ميرے وطن کی زينت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زينت
☆☆☆
زندگی ہو مری پروانے کی صورت يا رب!
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت يا رب!
☆☆☆
ہو مرا کام غريبوں کی حمايت کرنا
دردمندوں سے، ضعيفوں سے محبت کرنا
☆☆☆
مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مُجھ کو
نيک جو راہ ہو، اُس رہ پہ چلانا مجھ کو
☆☆☆


 Allama Iqbal Poetry in Urdu for Students


لکھنا نہیں آتا تو میری جان پڑھا کر
ہو جائے گی تیری مشکل آسان پڑھا کر
☆☆☆
پڑھنے کے لیے اگر تجھے کچھ نہ ملے تو
چہروں پہ لکھے درد کے عنوان پڑھا کر
☆☆☆
لا ریب، تیری روح کو تسکین ملے گی
تُو قرب کے لمحات میں قرآن پڑھا کر
☆☆☆
آ جائے گا تجھے اقبالؔ جینے کا قرینہ
تُو سرورِ کونینؐ کے فرمان پڑھا کر
☆☆☆


شاہین



کیا میں نے اس خاک داں سے کنارا
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
☆☆☆
بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ
☆☆☆
نہ باد باری، نہ گلچیں، نہ بلبل
نہ بیمارئ نغمہ عاشقانہ
☆☆☆
خیابانوں سے ہے پرہیز لازم
ادائیں ہیں ان کی بہت دلبردانہ
☆☆☆
ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری
جواں مرد کی ضربت غازیانہ
☆☆☆
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ
☆☆☆
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
☆☆☆
یہ پورب، یہ پچھم چکوروں کی دنیا
مرا نیلگوں آسماں بیکرانہ
☆☆☆
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
☆☆☆


No comments:

Only Post related comments are accepted to publish on site. No spam and promotional comments, please.

Advertisement

Sponsored Contents